نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں۔ دسمبر 2010ءمیں کمیونیکیشن کے لئے سینٹ کی قائم کردہ کمیٹی نے این ایچ اے کو کرپشن کا اڈہ قرار دیا تھا ۔این ایچ اے کے ”نیک سیرت“ جی ایم فنانس نے سابق چیئرمین کے ساتھ ملکر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو لوٹا تھا اسے نشان عبرت بنانے کی بجائے پروموٹ کروایا گیا اور آج وہی شعیب احمد خان اس ادارے کے اندر ممبر فنانس کے طور پر براجمان ہیں اور ان کی پوری کرپٹ ٹیم ان کے ہمراہ ہے۔آج بھی ٹھیکیداروں کو رہائش گاہ پر رات کے وقت حاضری دینا پڑتی ہے اور رات کے پردے میں وہ سارے معاملات طے ہوتے ہیں جو شائد دن کے وقت ”نیک سیرتی“ پر دھبہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ چیئرمین مطمئن ہیں کہ انہیں انتہائی وفادار ساتھی مل گئے ہیں۔ ہائی وے اتھارٹی حقیقت میں کرپشن کی ہائی وے بن چکی ہےِ۔حیرت ہے کہ مواصلات کی وزارت سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ۔ سابق چئیرمین این ایچ اے کے دور میں ۔ پشاور میں خوشحال گڑھ برج اور ناردرن بائی پاس روڈ کے ٹھیکے بھی بیچے گئے تھے۔ اس وقت بہت شور اٹھا اور چیئرمین صاحب دیہاڑیاں لگا کر فارغ ہوگئے اس وقت ان کے دست راست ایک جی ایم فنانس تھے اور ایک ڈائریکٹر ریونیو تھے ۔ اس وقت کے چیئرمین کا وطیرہ تھا کہ وہ ٹھیکیداروں کو رات کے وقت گھر بلا کر وہاں ٹھیکے بیچا کرتے تھے۔۔ پشاور میں خوشحال گڑھ برج اور ناردرن بائی پاس روڈ کے ٹھیکے بھی بیچے گئے تھے۔ بہت شور اٹھا اور چیئرمین صاحب دیہاڑیاں لگا کر فارغ ہوگئے لیکن کرپشن کے جو انجینئرز تھے وہ کسی نہ کسی طرح بچے رہے۔ یوں تو وزارت مواصلات نے اخبارات اور عالمی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کوئی اٹھارہ سو ملازمین کو ”برطرف“ بھی کردیا تھا لیکن اس قومی ادارے کے ”خون“ کو چوسنے والی جونکیں اسی طرح چمٹی رہیں اور ادارے کے تحت چلنے والے پراجیکٹس کے لئے اصول و ضوابط سے ہٹ کر فنانسنگ حاصل کی گئی۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے کے گھپلے ہوئے اور ہورہے ہیں۔ ۔این ایچ اے کے ”نیک سیرت“ جی ایم فنانس نے سابق چیئرمین کے ساتھ ملکر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو لوٹا تھا اسے نشان عبرت بنانے کی بجائے پروموٹ کروایا گیا اور آج وہی شعیب احمد خان اس ادارے کے اندر ممبر فنانس کے طور پر براجمان ہیں اور ان کی پوری کرپٹ ٹیم ان کے ہمراہ ہے۔آج بھی ٹھیکیداروں کو رہائش گاہ پر رات کے وقت حاضری دینا پڑتی ہے اور رات کے پردے میں وہ سارے معاملات طے ہوتے ہیں ۔ ٹرانسپئرنسی انٹرنیشنل نے اپنی گزشتہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان 183 بدعنوان ملکوں میں بیالیسویں نمبر پر ہے اور سالانہ کرپشن کا حجم پچاسی کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔2010ءمیں ٹرانسپرنسی ‘ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں کی رپورٹ میں پاکستان کی کرپشن کے لحاظ سے چھتیس ویں نمبر پر تھا‘ لیکن پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی بار بار کی گرفت اور ڈیفنس اداروں میں احتساب کے باعث کرپشن لیول میں وقتی طور پر رکاوٹ آئی جس کی وجہ سے قومی سطح کی کرپشن میں معمولی سی کمی دیکھنے میں آئی۔لیکن پبلک اکاﺅنٹس کی چیئرمین شپ سے چوہدری نثار احمد خان نے استعفیٰ دے دیا کہ گیلانی سرکار کسی طور پر بھی بدعنوانیوں کے کھلاڑیوں کو ہاتھ ڈالنے پر آمادہ دکھائی نہیں دے رہی۔ٹرانسپئرنسی انٹرنیشنل سے جڑے ذرائع کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے اندر پی آئی اے‘ ریلوے اور واپڈا کے اندر وقتی طور پر سہم جانے والے کرپٹ عناصر پھر سے پوری طرح شیر ہوگئے ہیں اور سپریم کورٹ کو دیگر قومی اور سیاسی فیصلوں میں مصروف پا کر دن رات لوٹ مار میں مصروف ہوگئے ہیں۔ذرائع کہتے ہیں کہ خدانخواستہ جب آئندہ برس کرپشن کے حوالے سے جائزہ پیش کیا جائے گا تو پاکستان ان بدقسمت ممالک میں شامل ہوجائے گا جن کی خوشحالیوں کو کرپٹ مافیا نے پوری طرح چاٹ لیا ہے۔ اندازے لگائے جارہے ہیں کہ اب کی بار سال 2012ءمیں لوٹ مار کا ہدف سو کھرب کو چھو لے گا۔ اندازے لگانے والوں نے بڑے بڑے قومی اداروں کے اندر فوری طور پر کی جانے والی انتظامی تبدیلیوں کی بنیاد پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔ |
۔این ایچ اے کے ”نیک سیرت“ جی ایم فنانس نے سابق چیئرمین کے ساتھ ملکر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو لوٹا تھا اسے نشان عبرت بنانے کی بجائے پروموٹ کروایا گیا اور آج وہی شعیب احمد خان اس ادارے کے اندر ممبر فنانس کے طور پر براجمان ہیں اور ان کی پوری کرپٹ ٹیم ان کے ہمراہ ہے۔آج بھی ٹھیکیداروں کو رہائش گاہ پر رات کے وقت حاضری دینا پڑتی ہے اور رات کے پردے میں وہ سارے معاملات طے ہوتے ہیں
Subscribe to:
Comments (Atom)